- Details
- Category: اردو
- Hits: 403
وجۂ تسمیہ:۔
جنگلات کی بہتات کی وجہ سے بن سے بنوں بنا۔ شاہ فریدعرف شیتک کی زوجۂ اول بانو کے نام سے بنوں کیوئی نسبت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ چینی سیاح فاہین اور ہیوان سانگ نے بھی اپنے سفر نامے میں بنوں کو بنوں ہی لکھا ہے۔ لہٰذا یہ حادثاتی طور پر مشہور ہو گیا ہے۔
فاہین اور ہیوان سانگ:۔
یہ چینی سیاح بندھ مت کی کتب اورروایتیں جمع کرنے کے لیے کابل سے چندر گپت (414۔۔۔400قبل مسیح) کے دور میں بنوں آیا ۔یہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے: کہ میں بنوں پہنچا تو بنوں میں تین ہزار پجاری موجود تھے۔ اس طرح ہیوان سانگ بھی ۰۳۶ قبل مسیح میں بنو ںپہنچا ۔ (بحوالہ جدید تاریخ ہند حصہ دوم ۔ مصنف ماسٹر ہری رام) ص:207۔206)
دورِ خلافت:۔
حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں (680۔656ء) بنوں تک اسلامی دستوںکے آنے کے واقعات ملے ہیں ( بحوالہ ” مسلمانوں کا عروج و زوال“ از مولانا سعید احمد اکبر آبادی)
دورِ محمود:۔
سبکتگین کے دور میں بھی بنوں پر یلغار کی گئی ۔ سبکتگین کے بیٹے محمود غزنوی نے 1005ءمیں بنوں کے آکرہ پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ علاقہ ڈنڈ طغل خیل کے آس پاس جنگ آکرہ کے شہیدوں کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔
دورِ غوری:۔
شہاب الدین محمد غور ی نے ۰۸۱۱ءمیں بنوں کا رخ کیا۔ غوری والہ کے مقام پر پڑاؤڈال کر ایک کنواں کھودا ۔ ان کے ساتھ قوم منگل و ہنی کے دستے بنوں آکر آباد ہوئے اس وقت سے بنوں پر افغان قوم کا تسلط جاری ہوا۔ تمام تاریخی کتابوں میں بنوں کو بنوں ہی لکھا گیا ہے۔
محل وقوع:۔
بنوں کوہ سلیمان اور کوہستان نمک کے سلسلے میں مغرب اور مشرق کی طرف سے گھرا ہوا ہے۔ آبپاشی کے لحاظ سے بنوں وادی دریائے کرم ، دریائے ٹوچی اور برساتی نالے دواہ کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ اقوام منگل نے دریائے کرم سے نہر کچکوٹ نکال کر بنوں میں نہری نظام ک�� بنیاد ڈالی۔ (بحوالہ بن باس) جس سے وادی بنوں کی زرخیزی اور شادابی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
نقل و حمل:۔
چونکہ بنوں انگریزوں کے قلمرو میں آ نے سے پہلے کابل کا صوبہ تھا ۔ درہ ٹوچی اور دوآبہ ٹل کے راستے کو وہاں سے نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جبکہ لکی و پنجاب و کرک کو جھنڈو خیل کا راستہ آپس میں ملاتا تھا۔
باشندگان:۔
بنوں کو مختلف زمانے میں مختلف جرنیلوں نے روندا کیونکہ یہ علاقہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ہائی وے کا کام کرتا تھا۔ مختلف مذاہب ، مختلف ثقافتوں اور رسوم و روایات کے اثرات یہاں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بنوں کے ابتدائی باشندوں کا تعلق یونانی مذہب سے تھا۔ جو کہ سکندر اعظم کے ساتھ یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ سکندر اعظم افغانستان سے پنجاب (ہندوستان) براستہ بنوں کر گزرا تھا۔ اس کے علاوہ ہندو مذہب کاراج بھی یہاں پر رہا ۔ جس میں آکرہ کے راجہ سنت رام کا نام سرفہرست ہے۔ جس کو محمود غزنوی نے غالبا 1005ءمیں تہس نہس کر دیا ۔ بحوالہ (خورشید جہاں تواریخ) قوم بدنی جو کہ ہندو عقائد رکھتی تھی یہاں پر آباد رہی۔
سلطان محمد غوری کے ساتھ قوم منگل بیرمل افغانستان سے ہو کر یہاں مختلف دیہاتوں میں آباد ہوئے۔ ان دیہاتوں کے موجودہ نام جو بنویوں نے رکھے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ گویا منگل ان دیہاتوں کے بانی تھے۔
فاطمہ خیل ، خورد ، آمندی ، بھرت ، خوجڑی ۔ شیخان شریف شاہ ۔ کالا خیل مستی خان ۔ صابو خیل ۔ طغل خیل ۔ ممش خیل نوگڑھی ۔ مندیو ۔ ہنجل نور باز اور گڑھی شاہ جہان شاہ۔ یہ دیہات بنوں کی تاریخی اور ابتدائی آبادی ہے۔ قوم منگل میں ناچاقی و بے اتفاقی کی وجہ سے انہوں نے پیر روحانی کو عشر دینا بند کر دیا ۔ جس پر پیر روحانی نے ان سے ناراض ہو کر اولاد شاہ فرید عرف شیتک ( بنویوں ) کو بنوں پر حملہ کرنے کی دعوت دی ۔ چونکہ بنوی قوم پہلے درویش خیل وزیرقوم سے شوال میں برسر پیکار تھی ۔ اس لیے یہ قوم بنوں پرحملہ آور ہوئی بنوں فتح کرنے کے بعد آل پیر صاحبان نے مفتوحہ علاقے کو بنویوں میں تقسیم کیا۔ جبکہ مغلوب قوم کو کوہ سفید پاڑا چنار اور کوہاٹ کے لودھی خیل گاﺅں کی طرف دھکیل دیا ۔ اس وقت بنویوں کی تعداد منگل کی نسبت بہت زیادہ تھی جبکہ منگل آٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھے۔ ساتھ ہی یہ لڑائی وقتا فوقتا ہوتی رہی۔ اور ررفتہ رفتہ باقی ماندہ دیہات پر بھی اولادِ شیتک کا قبضہ ہوگیا۔ فاطمہ خیل کو سب سے آخر میں فتح کیا گیا۔ (بحوالہ بن باس)
اقوام بانو زئی:۔
بانو زئی بنوچی پیر روحانی شاہ کے کہنے پر 708ھ کو بنوں پر حملہ آور ہوئے اور یہاں قابض ہو گئے ۔ رفتہ رفتہ تمام سابقہ اقوام منگل و ہنی کو بنوں سے نکال دیا گیا ۔ ان کی آبادیوں اور دیہاتوں پر اپنے اپنے نام رکھ دئیے۔ اور آج تک وہی نام استعمال کیے جاتے ہیں۔
بیرونی حملہ آور:۔
680۔656ءکے درمیان خلافت کے دور ِ حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ میں اسلامی فوج کا حملہ ہوا۔ 1005ء میں محمود غزنوی نے یہاں حملہ کیا اور آکرہ کو تاخت و تاراج کیا۔ 1180ءمیں محمد غور ی یہاں حملہ آور ہوا اور اس کے ساتھ قافلے میں ہنی و منگل قابل کی بنوں میں آمد ہوئے جنہوں نے یہاں سکونت اختیار کی ۔ 708ھ میں اولاد شیتک نے یہاں پر حملہ کیا اور ہنی و منگل قبائل کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ 1505ءمیں مغل بادشاہ بابرنے ٹل کے راستے بنوں پر حملہ کیا اور یہاں قتل عام کیا اس کے بعد اورنگزیب کے زمانے 1707۔ 1658ءمیں یہاں پر مغلوں کا حملہ ہوا۔ دراشکوہ ولد شاہجہان بنوں کوسیر کی غرض سے آیا ۔ جس نے جھنڈو خیل میں شاہ کوٹ کے نام پر قلعہ بھی تعمیر کروایا۔ 1738ءمیں نادر شاہ ایرانی درہ ٹوچی سے بنوں پر حملہ آور ہوا اس کے وفات کے بعد احمد شاہ ابدالیدرانی بادشاہ بنا۔ اس نے پختونخواہ خراسان افغانستان کے ناموں سے صوبوں کو موسوم کیا۔ اور بنوں کو افغانستان کا صوبہ قرار دیا۔ احمد شاہ ابدالی1449ءمیں سپہ سالار سردار جہاں کے ہمراہ درہ ٹوچی سے بنوں آیا ۔ اس کے دور میں مقامی باشندوں کی مردم شماری ہوئی۔ تیمور شاہ درہ ٹوچی سے 1118ھ میں بنوں سے میانوالی چلا گیا۔ تیمور شاہ نے سرفراز خان بارک زئی کو یہاں کاحاکم مقرر کیا۔ 1216ھ میں فتح خان بنوں آیا۔ بعد میں یار محمد بارک زئی 1236ھ میںبنوں آیا۔ 1809ءمیں سکھ دور کا آغاز ہوا رنجیت سنگھ نے بنوں پر حملہ کیا۔ اور قتل و غارت گری کرکے واپس چلا گیا ۔ سکھوں نے 1842ءتک حکومت کی لیکن غازی دلاسہ خان فخر بنوں سکنہ گالا خیل داود شاہ نے سکھوں کو چھین سے نہیں رہنے دیا اس عرصہ میں سکھوں اور بنوں کے اقوام کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ اس دور میں جرنیل سوچیت سنگھ نے گائے ذبح کرنے پر کوٹکہ اللہ داد (سورانی ) کے تقریباً چار سو مکینوں کو شہید کر دیا ۔ 1839ءمیں رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد سکھ حکومت ختم ہوئی اور 1846ءمیں سکھوں نے انگریزوں کے ہاتھوں شکست کھائی ۔ ایڈورڈ برٹش اسسٹنٹ ریزیڈنٹ مقرر ہوا اور دلیپ سنگھ ولد رنجیت سنگھ برائے نام بادشاہ بنا دیا گیا۔
انگریزوں کی عملداری:۔
فروری 1847ءمیں سر ہنری لارنس نے دلیپ سنگھ کو بنوں سے مالیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا ۔ کرنل ایڈورڈ بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جو 15 مارچ 1847ءکو بنوں میں داخل ہوا ۔ ایڈورڈ نے بنوں کا جائزہ لیا ۔ سفارشات تیار کیے ۔ ان سفارشات کی روشنی میں بنوں آسانی سے انگریزوں کی عمل داری میں آسکتا تھا ۔ اس خفیہ دستاویز میں بنوں کے چار سو دیہاتوں کی فصی�� ( 400 قلعے ) کاخاتمہ کرنا تھا۔ مولویوں اور کچھ سرداروں کو ہم راز اور ہم نوا بنا کر اس نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا اور تمام فصیلیں مسمار کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگوں نے ملتان پر انگریزوں کے حملے میں انگریزوں کی خوب مدد کی ۔ جس کے جواب میں ان سرداروں اور ملکوں کو انگریز وں نے جاگیر اور زمینیں عطا کیں۔ انگریزوں کے قبضہ کے بعد 1849میں بنوں کابل سے علیحدہ کر لیا گیا اور پنجاب میں شامل ہوا ۔ میجر ٹیلر پہلا انگریز ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا ۔ 1854ءمیں کرنل جان نکلسن ڈپٹی کمشنر بنا ۔ جنہوں نے اسی سال زمینوں کا سرسری بندوبست فارسی زبان میں کیا۔ اس کے بعد 1856 ء میں دوبارہ ڈپٹی کمشنر کاکس نے بندوبست کا ریکارڈ بنوایا۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں بنوں کے چند سرداروں نے حکومت کی مدد کی جس کے جواب میں انہیں جاگیریں اور القابات عطا ہوئے ۔ جنگ آزادی کے خلاف ترکی علماءنے انگریزوں کے حق میں فتویٰ دیا تھا اس لیے یہ جنگ انگریزوں کے لیے جائز قرار دی گئی ۔ 1885میں لارڈ ہیوم نے کانگرس کی بنیاد رکھی۔ جس میں بنوں سے بھی نمائندے شامل ہوئے۔
تحریکِ خلافت:۔
1919ءمیں جنگ عظیم اول میں اتحادی فوج نے ترکی اور جرمنی کو شکست دے دی ۔ ترکی پر انگریزوں کا قبضہ ہوا ۔ مسلمان انگریزوں سے متنفر ہوئے اور ہندوستان میں خلافت کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس کا مقصد ترک مسلمانوں سے یک جہتی اور انگریزوں سےبیزاری دکھانا تھا۔ اس خلافت کمیٹی میں بنوں کے اکثر ملکوں اور سرداروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ تمام علاقائی فیصلے عدالت کی بجائے خلافت کمیٹی کیا کرتی تھی ۔ کچہری میں اُلّو بول رہے تھے ۔ بنوں کے اکثر ملکوں اور سرداروں نے کابل کی جانب ہجرت بھی کی۔
سانحہ سپین تنگی ڈومیل:۔
24 اگست 1930کو یہ واقع پیش آیا۔ بنوں میں دفعہ ۴۴۱ نافذ ہونے کی وجہ سے جلسہ عام سپین تنگی لے جایا گیا ۔ جس میں فخر بنوں قاضی فضل قادر شہید ہوگئے ۔ موجودہ پارک میں آج بھی وہ مدفون ہیں جو انہی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس سانحہ میں 100 سے زائدلوگ شہید ہوئے اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔
اسلام بی بی :۔
۵ مارچ 1936ءمیں اسلام بی بی ( نور جہان) بنام امیر نور علی شاہ آف جھنڈو خیل کا تاریخی واقعہ رونما ہوا۔ مذہب اور ذات پات پر عشق اور محبت بازی لے گیا ۔ اسلام بی بی کو ہندؤوں کے حوالے کرنے پر بنوں میں آگ اور خو ن کی ہولی کا آغاز ہو گیا جس کی قیادت حاجی میرز علی خان فقیر ایپی نے کی۔ جو آخری دم تک انگریزوں کے خلاف برسر پیکار رہے۔ فقیر صاحب کے مختلف جرنیلیوں (خلیفہ) نے مختلف اوقات میں بنوں شہر پر حملے کیے۔ ان میں خلیفہ گل نواز ۔خلیفہ مہر دل خٹک ۔ فتح جنگ مشہور جرنیل گزرے ہیں۔ انگریزوں کے ساتھ مختلف اوقات میں 18 سے زائد لڑائیاں لڑی گئیں غالباً 1936ءمیں رحمزاد خان ۔ میرداد خان اور کئی دوسرے کانگریسی رہنماﺅں کو ریگل سینما کے پیچھے انگریز سرکار ٹھنڈے پانی میں غوطے دیا کرتی تھی لیکن ان تمام سختیوں کے باوجود ان لوگوں نے ہار نہیں مانی اور انگریزوں کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا۔
اہم نکات:۔
۲۲ جنوری 1848ءکو ضابطہ خان شہید ولد شیر خان حسن خیل عیسکی کو ایڈورڈ پر قاتلانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا۔
دو جنوری 1848ءکو نیا شہر دلیپ گڑھ ایڈورڈ نے تعمیر کیا۔ قلعہ بھی اس کے نام سے موسوم ہوا ۔ دلیپ سنگھ ، رنجیت سنگھ کا چھوٹا لڑکا تھا۔ جو برائے نام حکمران تھا۔ بنوں شہر کو بسانے کے لیے ہندوؤں کو پانچ روپیہ سالانہ کرایہ دینے کی شرط رکھی گئی۔ جبکہ ملکیت ان کی ذاتی تصور کی گئی ۔ اس طریقے سے بنوں شہر تعمیر ہواجس کو بعد میں ایڈورڈ آباد کا نام دیا گیا۔
جن لوگوں نے مالیہ زائد ادا کیا ان کو زائد زمینیں عطا کی گئیں۔جن کے پاس مالیہ نہ ہوتا تھا تو ان کی اپنی زمین انگریزوں نے قرقی کر لی ۔ جن لوگوں نے انگریزوں سے وفاداری کا ثبوت دیا ان کو انگریزوں نے انعام و اکرام و القابات سے نوازا۔
بندوبست 87۔1977ءکو جائیداد کی بنیاد پر اکثریت کے شجرہ عکس غلط بنائے گئے ۔ جن کی جائیدادیں موجود تھیں ان کا شجرہ نسب بنایا گیا اور جن کی جائیدادیں موجود نہیں تھیں ان کو شجرہ نسب سے محروم کر دیا گیا ۔ جو ان کا پیشہ تھا وہی ان کا نسب ٹھہرایا گیا۔ اس طرح اس بندوبست نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا۔ جس کا خمیازہ آج کی نسل بھگت رہی ہے۔
1967ءمیں بنویوں اور وزیروں کے درمیان مشہور لڑائی لڑی گئی۔
1901ءمیں صوبہ سرحد کا قیام عمل میں آیا ۔ میانوالی تک کا علاقہ بنوں میں شامل کیا گیا۔ 1900ءمیں ریلوے ٹریک سروے شرو ع ہوئی اور اسی سال دریا کرم پر پل باندھا گیا۔
1848ءدسمبر کو آخری دنون میں عیسیٰ خان بنوی مرد مجاہد کو پھانسی دی گئی۔
بنوں کی سطح سمندر اونچائی ۶۷۲۱فٹ ہے
1865ءمیں مشنری پینل سکول قائم ہوا ۔جس میں پچاس طلبا نے داخلہ لیا۔
10۔ 1855ئ۔ 1868ءاور 1881ءمیں بنوں میں مردم شماری کی گئی۔
نام کی تبدیلی:۔
ایڈورڈ (1854۔ 1840) کے دوران بنوں کا پہلا ڈپٹی کمشنر بن کر آیا ۔ اُسی نے بنوں شہر کی فیصل اور چھاونی کا علاقہ تعمیر کرکے آباد کرایا۔ اس نے اس ساری کوشش اور محنت کے پیشِ نظر بنوں کے قدیمی نام کو تبدیل کرکے اسے اپنا نام یعنی ”ایڈورڈ آباد“ سے موسوم کرکے مشہور کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔
کینٹ قلعے کی تعمیر:۔
چھاونی کا مو��ودہ قلعہ بھی انگریزوں ہی نے 1844ءمیں ”دلیپ سنگھ “ کے نام سے تعمیر کیا۔ اسے بنانا تو وہ آکرہ(بھرت ) میں چاہتے تھے ۔ سروے بھی وہیں کا ہوا مگر بجلی کی سہولت کے باعث اسے موجودہ جگہ پر تعمیر کیاگیا۔
بجلی:۔
ابتداءمیں بجلی جنریٹر بیرون پھوڑی گیٹ ہمایون سیف اللہ کے چچا اکرامی نے نصب کرایا جس سے شہریوں کو تیل سے بجلی فراہم کی جاتی تھی۔
ٹانچی:۔
ٹانچی بازار کی موجودہ موٹی فولادی چادر کی تاریخی ٹینکی 54۔1940ءکے درمیانی عرصے میں بنائی گئی۔ پورے برصغیر میں اس نقشے اور ڈیزائن کی صرف دو ہی ٹینکیاں بنائی گئی تھیں۔ دوسری غالباً ہندوستان کے شہر بمبئی میں ہے۔ اس کا ابتدائی کنکشن باباصاحب کے تالابوں کے ساتھ کیا گیا تھا اور یہ ٹانچی نشیب میں ہونے کے باعث خود بخود پانی سے بھر جاتی تھی۔
قائداعظم کی بنوں آمد:۔
18 اپریل 1948ءکو قائداعظم محمد علی جناح قلعے کے ساتھ ملحق گراونڈ ( سپین دراب) میں تشریف لائے لیکن انہوں نے عوام کو قلعے کی دیوار پر بنائے گئے چبوترے سے مخاطب کیا۔ یادگار کے طور پر اُسی جگہ آج چند توپیں رکھی گئی ہیں اور جھنڈے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی قلعے کی دیوار پر قائداعظم کے زریں اقوال Unity,Fath,Disciplineبھی نہایت جلی لکھے گئے ہیں۔ ایک سنگ مرمر کی یادگاری تختی بھی نصب کی گئی۔ آج کل یہ یادگار نظروں سے اوجھل ہے اور نئی نسل اس یادگار کو صرف تصویروں میں دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
ڈویژن کی حیثیت:۔
بنوں میںجو سوا صدی سے ضلع چلا آرہا تھا ۔ 93۔1992ءمیں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اسے ڈویژن کی حیثیت دے دی گئی۔
بنوں ترقی کے راستے پر:۔
صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ) میں 07۔2002ء ایم ایم اے کے دو ر حکومت کے دوران جب اکرم خان درانی بنوں کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر بنوں میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں ، بنوں میڈیکل کالج ، سوئی گیس ، بنوں آڈیٹوریم اینڈ پبلک لائبریری ، فضل قادر شہید پارک ، میڈیکل کمپلکس ، جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا کر اسے ترقی یافتہ شہروں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭
کتابیات:۔
۱۔ قبائل تاریخ کے آئینے میں مصنف انجینئر تور گل چمکنی ۔ 2005ء
۲۔ مسلمانوں کا عروج و زوال مصنف مولانا سعید احمد اکبر الہ آبادی 1983ء
۳۔ پشتون (اردو ) ڈاکٹر حبیب اللہ 2004ء
۴۔ تواریخ خورشید جہاں 1894ءفارسی مصنف شیر محمد خان گنڈا پور
۵۔بن باس اردو 1999ء۔ مصنف پروفیسر شمشیر علی خان
۶۔ تاریخ بنوں وزیرستان ۔ پشتو ۔ 1967ء مصنف گل ایوب سیفی مرحوم
۷۔ گیر ٹیٹر بنوں انگلش ( 48۔1883 1989ء R.Thor Burn
۸۔ جدید تاریخ ہند مصنف ماسٹر ہری رام ولد بشمبر ناتھ